شہید حسن نصراللہ و شہید صفی الدین کا تشییع جنازہ، مقاومت کی تاریخ میں ایک باب رقم کیا

شہید حسن نصراللہ اور ان کے دیرینہ ساتھی شہید صفی الدین کی تشییع جنازہ لاکھوں افراد کی موجودگی میں ہوئی۔ سید مقاومت عزت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچ گئے۔ القدس سے عشق اور قربانی کے جذبے سے سرشار یہ پاک خون نہ صرف مقاومت کا پرچم تاریخ میں سربلند کرے گا بلکہ اس نے مقاومت کی تاریخ میں ایک باب رقم کیا۔
لاکھوں حق کے متوالے ہر سمت سے اس بے مثال مجاہد کی مزار پر جمع ہوئے۔ “لبیک یا نصراللہ” کی گونج نعروں کے ساتھ مل کر فضاء کو شہادت کی خوشبو سے معطر کرگئی۔ اللہ اکبر کی یہ صدائیں دشمن کے چمگاڈروں کی پرواز کے دوران مزید بلند ہوگئیں۔ سرخ پرچم بہار کے اناری پھولوں کی مانند شہادت کے جذبے سے سرشار نوجوانوں کے ہاتھوں میں لہرانے لگے اور اس مقدس سرزمین کا ہر گوشہ شہداء کے ساتھ عہد کی تجدید کا آئینہ دار بن گیا۔
سید مقاومت وہ استقامت کی علامت ہیں جنہوں نے صہیونی طوفانوں کے سامنے کبھی سر نہیں جھکایا، آج ابدیت کی آغوش میں آرام کر رہے ہیں۔ ان کا پاک خون ایک موجزن دریا کی مانند پہلے سے زیادہ شعلہ زن ہوکر امت کے ہاتھوں میں آزادی کی مشعل روشن کررہا ہے۔ یہ آسمانی شہید فنا نہیں ہوا، بلکہ ایک ایسی علامت میں ڈھل گیا ہے جو پورے لبنان میں سانس لے رہا ہے اور مردہ باد اسرائیل کے ہر نعرے کے ذریعے اپنے زندہ ہونے کا اعلان کررہا ہے۔
جیسا کہ رہبر معظم نے فرمایا ہے کہ شہداء عزت کے تاج کے درخشاں نگینہ ہیں اور ان کا خون مقاومت کی شاخوں پر حیات کی بارش ہے۔
آج کا یہ عظیم الشان جنازہ، اللہ کے وعدے کی جیتی جاگتی تصویر ہے: «وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ» “اور ہم پر لازم ہے کہ مومنوں کی مدد کریں” (الروم: 47)
مقاومتی محاذ زمانے کے شیطانوں سے برسرِپیکار ہے اور ہر شہید کے ساتھ حتمی فتح مزید نزدیک ہورہی ہے۔ وہ دن قریب ہے جب مسجد اقصی کے محراب سے سورۂ فتح کی تلاوت کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے گی اور کامیابی کا ترانہ نیل سے فرات تک گونج اٹھے گا۔
ہاں! ہم عزت کی بلندیوں پر ہیں، وہ عزت جو نہ دولت، نہ طاقت اور نہ ہی فریبابہ حرکت سے حاصل ہوئی بلکہ یہ عزت سید حسن نصراللہ جیسے شہداء کے پاکیزہ خون کی بدولت حاصل ہوئی ہے۔