کالمز/بلاگ

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اخلاق اور عفو سے معاشرتی ہم آہنگی کے علمبردار

آج 17 ربیع الاول یعنی میلاد با سعادت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا دن ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت اس بات کی گواہ ہے کہ آپ تمام انسانی صفات کا نمونہ اور انسانیت کے لیے بے مثال رہنما ہیں۔ پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت اور اخلاقی کردار کا مطالعہ انسانیت کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تاریخ اسلام میں آپ کی شخصیت نہ صرف مذہبی رہنما کے طور پر بلکہ ایک انسانی رہنما کے طور پر بھی قابل تقلید ہے، جس نے عدل، تواضع، محبت، اور عفو و درگزر کے اصول معاشرتی زندگی میں نافذ کیے۔

پیغمبر اکرم (ص) نے معاشرتی نظم و انضباط قائم کرنے، حقوق انسانی کے تحفظ، اور محتاجوں اور محروم طبقات کی مدد کے لیے عملی اقدامات کیے۔ آپ کی سادگی، مہمان نوازی، اور دشمنوں کے ساتھ بھی رحمت و عدل کا برتاؤ، معاشرتی تعلقات میں اتحاد اور ایمان کی مضبوطی کا باعث بنے۔

مہر نیوز نے آنحضرت ص کی سیرت طیبہ کا جائزہ لینے کے لیے حجت‌ الاسلام والمسلمین سید محمد باقر علم الهدی سے گفتگو کی جس میں انہوں  نے کہا کہ فردی اور اجتماعی زندگی میں نظم و ضبط کی برقراری انسان کو فلاح اور کامیابی کی منزل تک پہنچانے میں بنیادی قدم ہے۔ پیغمبر اسلام (ص) نے ہجرت کے بعد انسانی معاشرت میں نظم و ضابطہ قائم کرنے، اسلامی حکومت کے اصول وضع کرنے اور قانون کے تحت معاشرتی امن و سکون فراہم کرنے کی بنیاد رکھی۔

انہوں نے کہا کہ دین اسلام نے عدل، حقوق کی ضمانت، واجبات اور حدودِ الہیٰ کے نفاذ اور اعلی انسانی اقدار کے احیاء کے ذریعے انسانیت کو تاریکی سے روشنی کی طرف رہنمائی کی۔ پیغمبر اسلام (ص) نے اس راہ میں ایک غیر معمولی کردار ادا کیا اور معاشرتی تعلقات اور انسانی رویوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق منظم کیا۔ چونکہ اسلام آخری دین اور پیغمبر اکرم خاتم النبیین ہیں، اس لیے آپ معاشرتی روابط کے نظام میں مرکزی اور فیصلہ کن کردار ادا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ اخلاق کو معاشرتی تعلقات میں شامل کرنا اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ انسانوں کے درمیان روابط دینی اخلاق پر مبنی ہوں۔ اس میں ایثار، عفو اور درگذشت جیسے بنیادی انسانی حقوق کی اہمیت نمایاں ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی کے ذریعے معاشرتی زندگی کا ایسا نمونہ پیش کیا جو کرامت اور عزت انسانی پر مبنی تھا۔

حجت‌الاسلام علم الهدی نے قرآن کی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اگر آپ سخت مزاج اور سنگدل ہوتے، تو لوگ آپ کے ارد گرد سے متفرق ہوجاتے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) کی نرم دلی، عفو و گذشت اور رحمت نے انسانی معاشرے میں رابطے اور تعلقات کے بنیادی اصول قائم کیے۔ تاریخی واقعات کے مطابق، آپ اکثر اپنے حق سے ہاتھ اٹھاتے اور ان لوگوں کو معاف کر دیتے جو جہالت یا نادانی کی وجہ سے آپ پر ظلم یا برا سلوک کرتے۔ اس گذشت اور عفو کی بدولت لوگوں کے دل نرم ہوئے، وہ دین اور شریعت کی طرف مائل ہوئے اور دینی اقدار کی اہمیت کو سمجھا۔

حجت الاسلام علم الهدی نے کہا کہ پیغمبر اسلام (ص) کے عفو و گذشت پر مبنی رویے نے نہ صرف انسانی تعلقات کو منظم کیا بلکہ معاشرت میں محبت، بردباری اور اخلاقی اقدار کو فروغ دیا۔

پیغمبر اکرم (ص) کی سادگی اور تواضع نے لوگوں کے دل جیت لئے

حجت‌الاسلام علم الهدی نے بتایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے لوگوں کے کاموں میں مدد، محتاجوں کی خدمت اور دیگر انسانی امور کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ یہ سب اعمال اسلامی اخلاق کے اہم اصول ہیں جن کے باعث لوگ آپ کے گرد جمع ہوتے اور آپ کے ساتھ بیٹھتے اور رہتے۔

انہوں نے تاریخی روایت کی مثال دیتے ہوئے عدی بن حاتم کا ذکر کیا۔ یہ واقعہ سنہ 9 ہجری میں پیش آیا۔ عدی بن حاتم، اسلام کی فوج سے شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ گیا تھا، لیکن کچھ دن بعد اپنی بہن کے ساتھ مدینہ واپس آیا اور مسجد نبوی میں حضور اکرم (ص) کے پاس حاضر ہوا۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اسے اپنے گھر مدعو کیا۔ اس دوران، پیغمبر اکرم (ص) ایک ضعیف العمر عورت سے ملے جو اپنی ضروریات اور مشکلات بیان کر رہی تھی۔ حضور اکرم نے صبر و تحمل اور خوش اخلاقی کے ساتھ طویل وقت تک اس کی باتیں سنیں۔ عدی بن حاتم نے سوچا کہ یہ رویہ کسی عام حکمران یا بادشاہ کے لیے مناسب نہیں، کیونکہ سلاطین عام طور پر عوام کے معمولی مسائل کے لیے اتنا وقت نہیں نکالتے، بلکہ یہ کام دوسروں پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لیکن پیغمبر اکرم کی تواضع اور دلی توجہ نے عدی کے دل میں امید پیدا کر دی۔ گفتگو ختم ہونے اور عورت کے امور ترتیب دینے کے بعد، پیغمبر اکرم نے عدی بن حاتم کے ساتھ اپنے گھر کا راستہ اختیار کیا۔ عدی بن حاتم توقع کر رہا تھا کہ ایک شاندار محل دیکھنے کو ملے گا، لیکن گھر میں اسے انتہائی سادہ ماحول دیکھا۔ کوئی قالین نہیں، صرف ایک چھوٹا سا کھجور کے ریشے کی چٹائی کا ٹکڑا ایک گوشے میں تھا۔ پیغمبر اکرم نے عدی کو اسی چٹائی پر بٹھایا اور خود زمین پر بیٹھ گئے، اور انتہائی احترام کے ساتھ مہمان نوازی کی۔ اس رویے نے عدی بن حاتم کے دل پر گہرا اثر ڈالا اور اسے بغیر کسی دلیل یا دعوت کے پیغمبر اکرم کی رسالت پر ایمان لایا۔

حجت الاسلام علم الهدی نے کہا کہ اس واقعے میں پیغمبر اکرم نے انسانی کرامت اور تواضع کا ایسا عملی نمونہ پیش کیا جو آج بھی حکمرانوں اور معاشرتی رہنماؤں کے لیے درس ہے۔ انہوں نے دشمن یا محتاج افراد کے ساتھ بھی احترام اور انسانی عظمت سے برتاؤ کیا۔

پیغمبر اکرم کی یہ سادگی، تواضع اور اخلاقی برتری نہ صرف لوگوں کے دل جیتتی بلکہ اسلامی معاشرت میں انسانیت اور عدل کے اعلی اصول قائم کرتی تھی۔

پیغمبر اکرم (ص) کا عدل و محبت پر مبنی رویہ

حجت‌الاسلام علم الهدی نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے عدل و انصاف کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہے۔ قل امر ربی بالقسط یعنی “کہہ دو کہ میرے رب نے عدل کا حکم دیا ہے۔”

پیغمبر اکرم (ص) ہمیشہ عدل کے مطابق عمل کرتے تھے اور اپنے تمام مخاطبین کے ساتھ یکساں سلوک فرماتے تھے۔ امام صادق علیہ السلام نے نقل کیا ہے کہ پیغمبر (ص) اپنی تقریروں کے دوران بھی عدل کا خیال رکھتے اور سب لوگوں کو برابر دیکھتے تھے۔ یہ رویہ معاشرتی تعلقات میں عدل کی اہمیت اور پیغمبر کی اس اصول پر پابندی کو واضح کرتا ہے۔

علم الهدی نے مزید بتایا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی کو محبت اور رحم دلی کے اصول پر استوار کیا۔ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے:

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ تو اللہ کی رحمت کی وجہ سے ان کے لیے نرم اور مہربان ہو گیا، اور اگر تو سخت دل اور تندخو ہوتا تو لوگ تیرے ارد گرد سے بکھر جاتے۔

 روایت کے مطابق، ایک عرب نے پیغمبر اکرم (ص) سے مال طلب کیا۔ پیغمبر اکرم نے اپنی معمولی دولت سے اسے بخش دیا، مگر وہ شخص دوبارہ زیادہ مال طلب کرنے لگا۔ صحابہ ناراض ہوئے اور اس شخص کو تنبیہ کرنے کے ارادہ رکھتے تھے، لیکن پیغمبر اکرم نے ایسا نہ کیا۔

پیغمبر (ص) نے اسے گھر جانے کی رہنمائی کی تاکہ وہاں سے بھی مدد حاصل کرے۔ اس شخص نے پیغمبر کے گھر میں سادگی، صفا اور رحمت کا ماحول دیکھا، اور جب پیغمبر نے اسے مزید عطا کیا تو وہ خوش ہوا، پیغمبر کا شکریہ ادا کیا اور اپنے رویے کی معذرت بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ پیغمبر اکرم ص نے اس واقعے کے ذریعے ایک مشرک کو مسلمان بنایا اور بغیر کسی تشدد یا سخت رویے کے دل جیت کر دین کی طرف مائل کیا۔ اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رحمت اور حکمت کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو جیتنا اور معاشرت میں ایمان و اخلاق کو مضبوط کرنا ممکن ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Back to top button